Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -میرا بچہ قسط2


 میرا بچہ
 از مشتاق احمد
قسط نمبر2


ادھر ڈاین کی صورت میں میرا کو اپنا بچہ بہت یاد آتا تھا۔ روتی رہتی تھی۔
 میرا بچہ کیسا ہوگا کہاں ہوگا۔
 وہ تو اب خود ایک آتما کی شکل میں تھی جو اس جگہ کے علاوہ کہیں نہیں جا سکتی تھی۔ 
اسی لئے وہ غصہ میں جو گزرتا ادھر سے مار ڈالتی تھی۔
 کچھ دن گزرے اسی راستے پر ایک گاڑھی آ رہی تھی جس میں سیف اور مادیہ بیٹھے ھوے تھے۔ 
وہ دوسرے شہر سے تھے۔
 یہاں کبھی نہیں اے تھے اور نہ کچھ جانتے تھے اس گاؤں کے بارے میں۔ 
مادیہ  کو پین تھی ڈیلیوری کی۔
 وہ سیف سے بولی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہی درد بڑھتا جا رہا ہے کچھ کریں۔
 بیگم یہاں تو کوئی ہسپتال بھی نہیں نظر آ رہا آگے جا کر دیکھتے ہیں۔ 
سیف کو غصہ تھا بیوی پر جب تمہیں پتہ بھی تھا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔
 کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے پھر بھی شوق چڑھا تھا کہ دوست کے بلانے پر دعوت میں لازمی جانا تھا۔ 
سوری بول رہی ہوں نہ۔
غصہ چھوڑ دیں۔
راستہ میں ایک بورڈ پر نظر پڑی گاڑھی روک کر سیف نے پڑھا ۔
اس سے آگے جانا خطرناک ہے۔ 
پتہ نہیں کس نے لکھا ہوگا۔
 مادیہ   کو درد بھی تھی پھر اب کیا کریں ہمیں جلد ہسپتال بھی جانا ہے۔
 کوئی اور راستہ لیں گے تو بہت ٹائم لگ جائے گا انہوں نے پڑھنے کے باوجود گاڑھی بڑھا دی۔
تھوڑی آگے گئے تو اچانک انکی گاڑھی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ۔
اف یہ کیا ہوا یوں اچانک۔
 ٹائر تو ٹھیک تھا۔ 
مادیہ  میرے پاس دوسرا ٹائر بھی نہیں ہے۔ پیدل کیسے جایں۔
 باہر نکل آیا سیف۔
 اب وہ دونوں اسی جگہ تھے۔ 
یکدم انکو کسی کے ھنسنے کی آواز آیی۔
 تم انسان لوگ بہت ظالم ہو تم لوگوں نے مجھ سے میرا بچہ چھینا تھا۔
رو رہی تھی پھر یکدم اسکی نظر مادیہ کے پیٹ پر  پڑی۔ 
بچہ ہے نہ وہاں۔آتما میرا نے پوچھا۔ 
 مادیہ  ڈر گئی ہمیں جانے دو پلیز مجہے درد ہے۔ 
اس نے مادیہ  کے پیٹ کے سامنے ہاتھ پھیلاے لہریں نکلیں اور یکدم بچہ میرا چڑیل کے بازو پر تھا۔
 وہ بچہ لیتی فورا غائب ہو گئی۔
 ادھر مادیہ  بیہوش ہو چکی تھی۔
 مادیہ  کیا ہوا تمہیں؟ اٹھو۔۔۔۔ سیف پرشانی میں مادیہ  کو جھنجھوڑ رہا تھا۔
 مادیہ کو ہوش آیا اسنے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔
 میرے پیٹ میں بچہ نہیں ہے رو کر بولی۔ 
سیف نے کہا وہ عورت بچہ لے گئی۔ 
کیوں لے گئی ہم نے اسکو کچھ کہا بھی نہیں تھا۔ حوصلہ کرو مادیہ  ۔
 ہم کچھ حل دھوندتے ہیں۔ 
پھر وہ چل کر ساتھ والے گاؤں میں اے۔
 وہی گاؤں جو میرا کا تھا۔
 اس گاؤں کے لوگوں کو ان دونوں نے رو کر سب بتایا۔ 
گاؤں والوں نے پوچھا تم نے بورڈ نہیں پڑھا تھا جو ہم نے لکھ کر لگایا تھا تا کہ اس راستے پر کوئی نہ جائے۔
 یہ تم لوگوں کی اپنی غلطی ہے اب بہُگتو۔ 
پلیز آپ لوگ ہماری مدد کرو ہمیں ہمارا بچہ واپس لا دو۔ 
سارے گاؤں والے ڈرتے تھے۔
 نہ نہ ہم انسان اور وہ روح۔ 
ہم نے مرنا ہے جو اس کے سامنے جایں۔
 جو بھی اس کے سامنے جاتا ہے وہ مار دیتی ہے۔
 تم لوگ کہیں اور سے مدد لو۔ 
وہ انکار کر کے ڈر کر بھاگ گئے۔ 
سیف اور مادیہ نے سب کی منت کی جتنے پیسے کہو گے ہم دیں گے ہماری مدد کرو پر گاؤں میں سے کوئی بھی انکی بات نہ مانتا۔ 
وہ پھر کچھ لوگوں کو دیکھ کر ان کے پاس گئے۔
 رقم کی بات کر رہے تھے کہ ڈاکوؤں میں سے ایک نے سن لی۔
 وہ بھاگتا ہوا اپنے سردار کے پاس گیا اور سب بات بتایی۔
انہوں نے جب رقم کا سنا تو لالچ میں آ گئے۔ اور سوچنے لگے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے جو رقم ہمیں مل جائے۔
 رات کو سوچتے رہے۔
 میں یہاں سے تب تک نہیں جاؤں گی جب تک مجہے میرا بچہ نہیں مل جاتا مادیہ روتے ہوے بولی۔ 
انہوں نے منت کر کے ایک دیہاتی کے گھر میں رہائش رکھ لی تھی۔
دیہاتی بولتے کہ کون انسان کبھی جن زادی روح سے لڑھ سکتا ہے کبھی نہیں۔
 تم لوگ لوٹ جاؤ قسمت سمجھ کر پر مادیہ  ضد میں تھی۔
 اسنے اپنے بچے کو دیکھا تک نہ تھا۔
 ایک دیہاتی بولا پتہ نہیں تمہارا بچہ زندہ بھی ہوگا یا نہیں۔ 
گاؤں کا سردار بولا وہ کسی کو زندہ نہیں چھوڑتی تم لوگوں کو بچہ کی وجہ سے کچھ نہیں کہا اور زندہ چھوڑ گئی۔

   1
0 Comments